رپورٹ : سید شاہ زیب شاہ
ایک سابقہ پولیس ملازم کی تحریر کے مطابق بلوچستان پولیس فورس کا اصل مسلہ 1861ء میں انگریز کا اپنی پالیسی کے مطابق ہندوستان پے حکمرانی کرنے کیلئے بنایا گیا پولیس رول ہے جس میں اب تک پولیس موبائلز کی جگہ گھوڑوں کی ضرورت اُن کی خوراک اُن کے اسطبل وغیرہ کا ذکر ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی جگہ ابھی تک وائرلیس میسج کو اہمیت دی جاتی ہے جب کے سرکاری طور پے موصول ہونے سے پہلے ہی خبر سوشل میڈیا اور موبائل واٹس اُپ کے ذریعہ ملک بھر میں پھیل جاتی ہے اور ہمارا پولیس محکمہ خفیہ کوڈ ورڈ میں موصول ہونے والے وائرلیس سسٹم کو اپگریڈ کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔اسمبلی میں بیٹھے پالیسی میکرز کو پولیس محکمہ میں جاری آفیسر شاہی کی کرپشن نظر نہیں آتی جسے روکنے کا کوئی فول پروف انتظام نہیں کیا جاتا۔ ہر محکمہ کی طرح پولیس محکمہ کے آفیسران بھی سرکاری فنڈز کو بیوی کا جہیز سمجھ کے خرچ کرتے ہیں جیسے غلاموں کی چیز ہو۔ آفیسران میڈیکل فنڈز کے نام پے لاکھوں روپے کے ماہانا فنڈز ایسے اپنے اکاونٹ میں منتقل کرواتے ہیں جیسے وہ زکواة ہو اور وہ اُس کیلئے مستحق ہوں۔ پولیس سپاہی کا مسلہ ڈبل ڈیوٹی کرنا۔ ایک دن غیر حاضری پے پانچ دن کی تنخواہ کاٹنا بیماری کی صورت نفری کی کمی کو بنیاد بنا کے چھٹی نا دینا ہر وقت کرپٹ آفیسران کے لئے کرپشن کرنے پے مجبور ہونا۔ ہوم ڈسٹرکٹ سے منتھلی حاصل کرنے کی خاطر ملازمان کے تبادلے کرنا۔ تھانوں میں سیاسی بنیادوں پے جعلی ایف آئی آر کاٹنا منشیات فروشوں سے آفیسران کے حکم پے منتھلی وصول کرنا سیاسی مداخلت پے تبادلے کرنا سفارش پے اہم پوسٹ پے نااہل ملازم رکھنا۔ اور ہر روز لوگوں سے گالیاں کھانا مار کھانا زخمی ہونا اور پھر معافی بھی پولیس سپاہی کو مانگنے پے مجبور کرنا۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کے حل کرنے کی بجائے پولیس رول 1861ء کا دفع کیا جاتا ہے۔ کیا پاکستان کے پالیسی میکرز اتنے نااہل ہیں کے وہ انگریز کے قانون سے پاک پولیس کو آزادی دلاسکیں۔؟
موجودہ پولیس سسٹم میں ایک تفتیشی کو اپنی تنخواہ سے کیس کی تفتیش مکمل کرنی پڑتی ہے اور کہا جاتا ہے کے تفتیشی کرپٹ ہے۔ ہمارے پالیسی میکرز اب تک کوئی ایسا سسٹم نظام بنانے میں ناکام رہئے ہیں جس میں تفتیشی کو اسپشل فنڈز جاری ہوں تاکہ کرپشن سے پاک ماحول میں اپنے فرائض ادا کرسکیں۔ ایک 14 سکیل کا SHO جس کی تنخواہ 45 ہزار سے زیادہ نہیں بطور تھانہ انچارج اُس کے اخراجات ایک لاکھ سے زیادہ کے ہوں تو وہ تھانہ محرر کے رحم وکرم پے ہی چھوڑے گا۔ محرر بھی پیسے اپنی تنخواہ سے ادا نہیں کرے گا وہ بھی منشیات فروشوں جواہ خانوں سے حاصل ہونے والی منتھلی سے ہی ادا کرے گا۔ جب کے تھانے میں کسی چیز کی ضرورت ہو یا ایس پی کے دفتر میں کسی کاغذ قلم کی ضرورت ہو یا بنگلہ میں گوشت راشن پہنچانے کی ڈمانڈ کی جائے وہ محرر سے کہا جاتا ہے اور وہ ادلیٰ ملازم ظاہر ہے کرپشن ہی کرے گا ایسے مسائل کو ہمارے پالیسی میکرز کیوں نہیں زیربحث لاتے۔ سروس کمیشن سے اسسٹنٹ سب انسپکٹرز کی بھرتی کرنا اچھی بات ہے مگر اُن کے لئے فیلڈ میں کام کرنا جہاں مخبر کے اخراجات اور آئے دن عدالتوں میں طلبی اور دیگر ایسی ڈیوٹیز جن میں اپنی جیب سے اخراجات ہوتے ہوں وہ تنخواہ میں کیسے پورے کریں گے ظاہر ہے وہ کرپٹ ہوں گے پھر کہا جاتا ہے پولیس کریٹ ہے۔ مگر کوئی شخص اُن پالیسی میکر سے کوئی مطالبہ نہیں کرتا جن کو اسمبلیوں میں عوام نے خود بھیجا ہے کے پولیس کے اندرونی مسائل کو حل کریں جس کی اہم بنیادی جڑ 1861ء کا پولیس رول ہے جسے انگریز کا کالا قانون کہا جاسکتا ہے۔ پولیس موبائلز کو دس لیٹر ڈیزل دے کے 24 گھنٹے گشت کاحکم دیا جاتا ہے یہی حال موٹرسائیکلوں کا ہے جسے ایک لیٹر میں دن رات موونگ پوزیشن پے رکھا جاتا ہے۔ یہ کیسی ستم ظرفی ہے کے اس کے باوجود فرائض کی ادائیگی میں تھوڑی اُونچ نیچ ہوجائے یا گاڑی کا تیل ختم ہوجائے اُس علاقے میں واردات ہو بیچارا پولیس والا سزا کا مستحق ٹھہرایا جاتا ہے۔ آخر کب تک حکمران پولیس کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے آخر کب ایسا پولیس رول بنائیں گے جس میں کانسٹیبل سے لے کر انسپکٹر تک عزت کے ساتھ ایمانداری سے اپنے فرائض نبھاسکیں گے۔
ہمارے قانون کی بھی عجب نرالی ریت ہے پولیس والے اپنی جان پے کھیل کر موٹرسائیکل چور یا کسی اور مجرم کو پکڑتی ہے عدالت ایک ہفتہ میں ضمانت پے چھوڑ دیتی ہے اور باہر آکے وہی دوبارہ چوریاں کرتے ہیں۔ جب ایسے مجرم عدالت پیشی پے نہیں جاتے تب بھی عدالتی تلوار پولیس پے لٹکتی رہتی ہے کے اشتہاری پکڑ کے پیش کیئے جائیں۔ جب کے اُنہیں چھوڑنے والی عدالت تھی اور جس ضمانت پے چھوڑا گیا اُس پے کوئی کاروائی نہیں کی جاتی بس قصور وارپولیس ہے۔
صوبائی اسمبلی میں بیٹھے پالیسی میکرز سے درخواست ہے کے محکمہ پولیس کی احساس محرومی کو سمجھیں اُنہیں پاکستانی شہری ہونے کا حق دیں اُن کے لئے 1861ء کا کالا قانون ختم کرکے پاکستانی آئین کے مطابق نیا پولیس رول لے کر آئیں۔ اور سب سے اہم مسلہ بلوچستان پولیس کو اپگریڈ کرکے ذہنی کوفت اور احساس محرومی سے نکالیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان پولیس کا میڈیکل فنڈ جو ایس ایس ایس پی رینک سے بالا آفیسران اور آفس اسٹاف کھاجاتے ہیں ادنیٰ ملازم کو آٹے میں نمک کے برابر حصہ دیا جاتا ہے جسے تنخواہ میں فکس کردینا چاہئے تاکہ اس مہنگائی میں ہر ملازم فائدہ حاصل کرسکے۔
0 Comments: